تم سمجھتی ہو یہ گلدان میں ہنستے ہوئے پھول
میری افسردگئ دل کو مٹا ہی دیں گے
یہ حسیں پھول کہ ہیں جان گلستان بہار
میرے سوئے ہوئے نغموں کو جگا ہی دیں گے
تم نے دیکھی ہیں دمکتی ہوئی شمعیں لیکن
تم نے دیکھے نہیں بجھتے ہوئے دیپک ہمدم
وہی دیپک جو نگاہوں کا سہارا پا کر
ایک لمحے کے لئے جلتے ہیں بجھ جاتے ہیں
کبھی اک اشک سے دھل جاتے ہیں صدیوں کے غبار
کائنات اور نکھر اور سنور جاتی ہے
کبھی ناکام تمنا کی صدائے مبہم
قہقہہ بن کے فضاؤں میں بکھر جاتی ہے
ٹوٹتے تاروں کے سنگیت سنے ہیں تم نے
وہ بھی نغمے ہیں جو ہونٹوں سے گریزاں ہی رہے
پھڑپھڑاتے ہوئے دیکھے ہیں فضاؤں میں کبھی
وہ فسانے جو نگاہوں سے بیاں ہو نہ سکے
کبھی کانٹوں سے بہل جاتی ہے روح غمگیں
اور معصوم شگوفوں کی رسیلی خوشبو
نیشتر بن کے رگ جاں میں اتر جاتی ہے
ہاں یہی پھول یہی جان گلستان بہار
ناگ بن کر کبھی احساس کو ڈس لیتے ہیں
نظم
اعتذار
ادا جعفری