ایک عمر ہوتی ہے
جس میں کوئی لڑکا ہو
یا وہ کوئی لڑکی ہو
سوچتے ہیں دونوں ہی
ہم ہی حرف اول ہیں
اس جہان کہنہ کو
اپنی فکر نو سے ہم
اک لگن کی لو سے ہم
جس طرح کا چاہیں گے
ویسا ہی بنا لیں گے
پتھروں کو مر مر کے
پیکروں میں ڈھالیں گے
ایک عمر ہوتی ہے
جس میں کوئی لڑکا ہو
یا کوئی لڑکی ہو
سوچتے ہیں دونوں ہی
کتنے عزم تھے اپنے
نذر خاک ہیں سارے
بات دامنوں کی کیا
چاک چاک دل بھی ہیں
ہم کہ حرف اول تھے
حرف آخریں بھی نہیں
ہم کہ آسماں سے تھے
ذرۂ زمیں بھی نہیں
ایک عمر ہوتی ہے
خواہشوں کی جذبوں کی
ایک عمر ہوتی ہے
کاہشوں کی صدموں کی
نظم
ایک عمر ہوتی ہے
احمد راہی