یہ آئینے کا سفر نامہ نہیں
کسی اور رنگ کی کشتی کی کہانی ہے
جس کے ایک ہزار پاؤں تھے
یہ کنویں کا ٹھنڈا پانی نہیں
کسی اور جگہ کے جنگلی چشمے کا بیان ہے
جس میں ایک ہزار مشعلچی
ایک دوسرے کو ڈھونڈ رہے ہوں گے
یہ جوتوں کی ایک نرم جوڑی کا معاملہ نہیں
جس کے تلووں میں ایک جانور کے نرم
اور اوپری حصے میں اس کی مادہ کی کھال ہم جفت ہو رہی ہے
یہ ایک اینٹ کا قصہ نہیں
آگ پانی اور مٹی کا فیصلہ ہے
یہ ایک تلوار کی داستان ہے
جس کا دستہ ایک آدمی کا وفادار تھا
اور دھڑ ایک ہزار آدمیوں کے بدن میں اتر جاتا تھا
یہ بستر پر دھلی دھلائی ایڑیاں رگڑنے کا تذکرہ نہیں
ایک قتل عام کا حلفیہ ہے
جس میں ایک آدمی کی ایک ہزار بار جاں بخشی کی گئی
نظم
ایک تلوار کی داستان
افضال احمد سید