گھر میں بیٹھے ہوئے کیا لکھتے ہو
باہر نکلو
دیکھو کیا حال ہے دنیا کا
یہ کیا عالم ہے
سونی آنکھیں ہیں
سبھی خوشیوں سے خالی جیسے
آؤ ان آنکھوں میں خوشیوں کی چمک ہم لکھ دیں
یہ جو ماتھے ہیں
اداسی کی لکیروں کے تلے
آؤ ان ماتھوں پہ قسمت کی دمک ہم لکھ دیں
چہروں سے گہری یہ مایوسی مٹا کے
آؤ
ان پہ امید کی اک اجلی کرن ہم لکھ دیں
دور تک جو ہمیں ویرانے نظر آتے ہیں
آؤ ویرانوں پر اب ایک چمن ہم لکھ دیں
لفظ در لفظ سمندر سا بہے
موج بہ موج
بحر نغمات میں
ہر کوہ ستم حل ہو جائے
دنیا دنیا نہ رہے ایک غزل ہو جائے

نظم
ایک شاعر دوست سے
جاوید اختر