معلوم نہیں ذہن کی پرواز کی زد میں
سرسبز امیدوں کا چمن ہے کہ نہیں ہے
لیکن یہ بتا وقت کا بہتا ہوا دھارا
طوفان گر و کوہ شکن ہے کہ نہیں ہے
سرمائے کے سمٹے ہوئے ہونٹوں کا تبسم
مزدور کے چہرے کی تھکن ہے کہ نہیں
وہ زیر افق صبح کی ہلکی سی سپیدی
ڈھلتے ہوئے تاروں کا کفن ہے کہ نہیں ہے
پیشانی افلاس سے جو پھوٹ رہی ہے
اٹھتے ہوئے سورج کی کرن ہے کہ نہیں ہے
نظم
ایک سوال
علی سردار جعفری