سمندر بے کرانی کا انوکھا سلسلہ ہے
آسماں بھی اپنے نیلے پن سے اکتایا ہوا ہے
پانیوں پر چلتے چلتے
نم ہوا کے پاؤں بھی شل ہو چکے ہیں
بادباں سونے لگے ہیں
ساحلوں پر
آفتابی غسل کرتی لڑکیاں بھی
لوٹ کر اپنے گھروں کو جا چکی ہیں
ریت پر پھیلے ہوئے ہیں
ان کے قدموں کے نشاں
جسموں کی ننگی باس
مشروبات کے بے کار ٹن
تصویر میں اوندھا پڑا ہے
زندگی کی شام میں بھیگا ہوا
اک دن!
نظم
ایک ساحلی دن
نصیر احمد ناصر