ہجوم سے بچ کے
سونے سونے خموش رستوں پہ چلنے والا
وہ اس زمانے میں پا پیادہ مسافرت کا امین
رستہ بدل چکا ہے
نظر عبث اس کا نقش
مانوس راستوں پر
تلاش کر کے چونکتی ہے
مجھے خبر ہے وہ جا چکا ہے
وہ جا بجا راہ میں ابھرتی شبیہ اس کی
نگاہ کی تشنگی نے مثل سراب ایجاد کر رکھی ہے
جب آخری بار اس کو دیکھا
تو اس کا رستہ بدل چکا تھا
ہر اک طریقہ بدل چکا تھا
ہجوم سے بچ کے چلنے والا
ہجوم کے ساتھ چل رہا تھا
جب آخری بار اس کو دیکھا
تو عمر بھر کی مسافرت کے خلاف
اس کو سوار دیکھا
اور اس کے پہلو میں پا پیادہ ہجوم کو سوگوار دیکھا
نظم
ایک پیدل چلنے والے دوست کا نوحہ
خورشید رضوی