میرا جی چاہتا ہے
نظم لکھوں
اس کے لیے
اس کی زلفوں کے لیے
اس کی آنکھوں کے لیے
اس کے انداز تکلم کے لیے
جو مری روح کی تسکین کا سامان بنا
اس کے ہر زوایہ جسم کی خاطر
جو مرے جسم کی تزئین کی پہچان بنا
میں مگر سوچتا ہوں
جو سراپا ہے غزل
اس کے لیے کیا لکھوں
جو سمندر ہے اسے کس طرح دریا لکھوں
اور دریا کو جو لکھوں بھی تو قطرہ لکھوں
اور قطرے کو سمیٹوں بھی تو نقطہ لکھوں
میں عجب سوچ میں ہوں اس کے لیے کیا لکھوں
نظم
ایک نقطہ
محسن احسان