آنکھیں اندھے کنویں کی مانند دور اندھیرے رستوں پر پانی کو کھرچ رہیں ہیں
گہری دھند کی چادر اوڑھے کون ابھاگن
پھوٹ پھوٹ کے رو بھی نہ پائی
صبر کی روٹی چپ کا سالن سب ذائقوں سے کڑوا زہر گلے کے اندر
کند چھری کی مانند اٹکے
کیا بولے سارے لفظ اپنے لہو کی گردش سے بے پرواہ
لب پر اتریں
معافی کے چھلکوں کو اتاروں گی روحیں کچھ نہ کہیں گی
دینا سب کچھ اس کو
واپس کچھ بھی نہ لینا
ہاتھ تمہارے سدا ہی بھر رہیں گے جذبوں کے
پھولوں سے
مت کچھ کہنا ورنہ سارا ملبہ تمہارے اوپر آن گرے گا
کچی دیواروں کے ناطے تصویروں کے رنگوں سے بھی کچے
ہاتھوں وار زبانوں پر گزری باتوں کے سارے سکھ اک اک کر کے مٹتے جاتے ہیں
من کی ساری شکتی بیچ سمندر ڈوب گئی ہے
ہوا میں آنسو گیس کے گولے چھوٹیں تو سب رونا ایک ہی وقت میں رولیں
تیاگ کا لمبا رستہ با نہیں پھیلائے اپنی اور بلاتا ہے
آگے جاؤ سب کچھ سنو
آؤ اس آواز کے رستے پر چلتے جائیں
دیوار دور سے دور
نظم
ایک نظم
شائستہ حبیب