EN हिंदी
ایک نظم | شیح شیری
ek nazm

نظم

ایک نظم

قیوم نظر

;

رات کے خوابوں کا اک طرفہ سماں ہوتا ہے
صبح کے گونجتے آوازے سے چونک اٹھتا ہوں

سانس لیتا ہوں بہر کیف گماں ہوتا ہے
انگلیاں پھیرتا ہوں اپنے بدن پر اب تو

کارواں ہوش کا یادوں کا رواں ہوتا ہے
یہ نیا دن ہے مگر وقت کہاں ٹھہرا ہے

سامنے کھونٹی سے لٹکا ہے مرا گرم لباس
جس پہ خود ساختہ پابندیوں کا پہرا ہے

جن کے سائے میں ابھی مجھ کو رواں ہونا ہے
میری تہذیب کا ہر زخم بہت گہرا ہے

اور بھی جاگنے والے ہیں خیال آتے ہیں
سوچتا ہوں مری صورت کہیں وہ بھی اٹھ کر

درد سہتے ہیں کبھی درد کو سہلاتے ہیں
جانے کس جرم کی پاداش میں یوں گھلتا ہوں

لوگ تو ورنہ اسی بات پہ اتراتے ہیں
دور بے دھیانی میں گھڑیال صدا دیتا ہے

ذہن دل جسم ہر اک چیز چمک اٹھتی ہے
مار کر کوڑے کوئی جیسے اٹھا دیتا ہے

ڈر کے سب بھاگتے ہیں کھیتوں کو میدانوں کو
وقت بھٹکے ہوؤں کو رہ پہ لگا دیتا ہے

لہلہاتے ہوئے گندم کے سجیلے پودو
مسکراتے ہوئے کھیتوں کے محافظ پیڑو

جھومتی ٹہنیوں کو وجد میں لاتے پتو
مجھ کو قدرت دو کہ میں تم کو سراہوں چاہوں

شہر کے سحر کو توڑوں تمہیں پالوں دیکھوں