اسے وہی جانتا ہے
جس نے ایک بچہ جنا ہو
یا اسے جنم دینے سے
پہلے بہا دیا ہو
دونوں دکھ ایک ہی ہیں
جیسے تمہیں
گرم گرم جلتے ہوئے لوہے سے
داغا جا رہا ہو
یا تمہارے جسم کو
گودا جا رہا ہو
ایک سرے سے دوسرے سرے تک
اندھیرے اور سناٹے میں
دروازہ ہو نہ کوئی شگاف
کہ آواز باہر جا سکے
بس جیسے
ایک کند چھری جو تمہارے ہی ہاتھوں
تمہاری گردن کاٹ رہی ہو
اور اس لذت آمیز خود اذیتی میں
تم خود کو ہلکان ہوتے ہوئے
دیکھ رہے ہو
لمحہ بہ لمحہ
ایک وجود کو
دوسرے سے باہر دھکیلنا
باہر آلودگیوں کے ڈھیر پر
دھیرے دھیرے
کوئی نام دینے کے لیے
نظم
ایک نظم لکھنا مشکل ہے
عذرا عباس