روایتوں کا لباس پہنے
گزشتگاں کا نصاب تھامے
طرازیت کے نگار خانوں میں بین کرتی
گھٹن زدہ قافیوں ردیفوں کے درمیاں
منتشر خیالوں کے بوجھ اپنے دل حزیں پر
اٹھائے پھرتی ہوئی اکائی
وفور تخلیق سے پریشاں
قدم قدم فرد فرد ہوتی بکھر رہی ہے
اسی کے جز ہیں
جو اس پہ حاوی ہوئے تو ایسے
کہ آپ اپنی الگ ہی دنیا بسا رہے ہیں
عجیب دنیا
جو کہکشاں سے الگ کھڑی ہے
جو اپنے محور پہ دم بخود ہے
مگر وہ آزردہ کہکشاں
گردشوں سے لڑتی
کئی زمانے گزار آئی
مکالمے سے مکاشفے تک
مشاہدے سے معاملے تک
کئی سفر تھے کئی پڑاؤ
جہاں وہ دیوانہ وار پھرتی رہی
خلش کم ہوئی نہ عنواں ہی بن سکا
اور خیال تشکیل کے مراحل میں گم رہا

نظم
ایک نظم کہ غزل کہیں جسے
سلمان ثروت