ہر چند ہے ذوق کامرانی
ہنگامۂ زندگی کا باعث
ہر چند ہے آگہی کی زد میں
یہ حسن گل و مہ و ستارہ
ہر چند ہر آرزو کا دھارا
گم دشت سراب میں ہوا ہے
انجام عمل ہے سرگرانی
اک اشک الم ہے زندگانی
لیکن نہ رہے اگر جہاں میں
تکمیل ہنر کی کوئی صورت
دنیا میں کہ بے خیال ساحل
طوفاں ہے حیات کی روانی
منزل تو نہیں ہے کوئی منزل
تاہم یہ سفر کا برگ و ساماں
یہ رنگ نشاط کار دانی
ہر گام امید کامرانی
ارباب مراد کا صلہ ہے
گر یہ بھی نہ ہو تو اور کیا ہے
نظم
ایک نظم
اسلم انصاری