چھٹپٹے کے غرفے میں
لمحے اب بھی ملتے ہیں
صبح کے دھندلکے میں
پھول اب بھی کھلتے ہیں
اب بھی کوہساروں پر
سر کشیدہ ہریالی
پتھروں کی دیواریں
توڑ کر نکلتی ہے
اب بھی آب زاروں پر
کشتیوں کی صورت میں
زیست کی توانائی
زاویے بدلتی ہے
اب بھی گھاس کے میداں
شبنمی ستاروں سے
میرے خاکداں پر بھی
آسماں سجاتے ہیں
اب بھی کھیت گندم کے
تیز دھوپ میں تپ کر
اس غریب دھرتی کو
زر فشاں بناتے ہیں
سائے اب بھی چلتے ہیں
سورج اب بھی ڈھلتا ہے
صبحیں اب بھی روشن ہیں
راتیں اب بھی کالی ہیں
ذہن اب بھی چٹیل ہیں
روحیں اب بھی بنجر ہیں
جسم اب بھی ننگے ہیں
ہاتھ اب بھی خالی ہیں
اب بھی سبز فصلوں میں
زندگی کے رکھوالے
زرد زرد چہروں پر
خاک اوڑھے رہتے ہیں
اب بھی ان کی تقدیریں
منقلب نہیں ہوتیں
منقلب نہیں ہوں گی
کہنے والے کہتے ہیں
گردشوں کی رعنائی
عام ہی نہیں ہوتی
اپنے روز اول کی
شام ہی نہیں ہوتی
نظم
ایک نظم
احمد ندیم قاسمی