EN हिंदी
ایک نظم | شیح شیری
ek nazm

نظم

ایک نظم

عادل منصوری

;

اداسی کے پیلے درختوں کی شاخوں سے چپکے ہوئے
سبز پتوں میں تیرا تجسس

مرے جسم کی ٹوٹتی سرحدوں پر
خیالوں کے سایوں کو رسوا کرے گا

کنویں کے اندھیرے کی بھیگی ہوئی
جامنی آنکھ کی گول چکنائی کے

سرخ خوابوں کے اندر
جواں لمس کے ایک جنگلی کبوتر کے

پھیلے ہوئے پر افق کو چھویں گے
مجھے بند کمرے میں بیٹھا ہوا دیکھ کر

گول کھڑکی کے شیشوں پہ
بارش کے قطروں کی آنکھیں کھلیں گی

کوئی مرمریں ہاتھ ٹھنڈی ہوا میں
مجھے اپنی جانب بلائے گا لیکن

مجھے خوف ہے تیرا پیلا تجسس
سمندر پہ پھیلی ہوئی سورجی شام کی سیڑھیوں سے

تجھے خودکشی کی طرف لے نہ جائے