ایک بار اور ذرا دیکھ ادھر
اپنے جلووں کو بکھر جانے دے
روح میں مری اتر جانے دے
مسکراتی ہوئی نظروں کا فسوں
یہ حسیں لب یہ درخشندہ جبیں
ابھی بے باک نہیں
اور آنے دے انہیں میری نگاہوں کے قریں
ڈال پھر میری جواں خیز تمناؤں پر
بے محابا سا باسی نظر
ایک بار اور ذرا دیکھ ادھر
ہاں وہی ایک نظر
غیر فانی سی نظر
جس کی آغوش میں رقصندہ ہے
ابدی کیف کی دنیائے جمیل
جس میں تاریکی آلام نہیں
کاہش گردش ایام نہیں
محو ہو جاتے ہیں جس سے یکسر
یاد ماضی کی خلش
کاوش فردا کا اثر
ہاں وہیں ایک نظر
ایک بار اور ذرا دیکھ ادھر
نظم
ایک نظر
صوفی تبسم