بانس کے جھنڈ میں
چاندنی جب دبے پاؤں داخل ہوئی
پتیوں کے لحافوں میں دبکی ہوئی سو رہی تھی ہوا
جاگ اٹھی
اک ذرا ہٹ کے تالاب کی گود میں
گھس کے سوئی ہوئی ننھی لہروں نے آنکھیں ملیں
کلبلانے لگیں
اور کہن سال ٹیلوں پہ بیٹھے ہوئے
کچھ کہن سال پیڑوں کی پرچھائیاں
سر ہلانے لگیں
دور اندھیرے کے تالاب میں
ڈبکی مارے ہوئے گاؤں نے
سر نکالا اور اک سانس لی
نظم
ایک منظر
راہی معصوم رضا