EN हिंदी
ایک منظر، ایک عالم | شیح شیری
ek manzar, ek aalam

نظم

ایک منظر، ایک عالم

عزیز قیسی

;

دن ڈھلے
مندروں کے کلس مسجدوں کے منارے گھروں کی چھتیں

سونے چاندی کے پانی سے دھلنے لگے
قلۂ کوہ سے چشم نظارہ لیکن بڑی دور تک

پگھلے سونے کی چادر کے نیچے تڑپتا ہوا
گہری ظلمت کا ایک بحر ذخار بھی

دیکھتی رہ گئی
کیسا منظر ہے یہ

میں ابھی عمر کے ڈھلتے سورج کی دنیا نہیں
پھر بھی میرے سنہرے دو پہرے تبسم کے نیچے کہیں

آنسوؤں کا سمندر نہ بے چین ہو
نیچے آؤ ذرا رفعت بام سے

اور دیکھو کبھی
کیسا عالم ہے یہ