میں وقت کے خیمے سے نکلا۔۔۔
تو الجھنوں کی چلچلاتی دھوپ میں
زیست مجھ سے لپٹ پڑی
اور سلجھنوں کا سفر میرے تلووں پر لکھ دیا
انکار سے نا آشنا
میں نے پاؤں پر سفر باندھ لیا
اب آسمان جیسا ایک حسیں منظر بنا کر
مجھے سفید پرندوں کے حوالے کرنا ہے
دل کی زمین سے نفرت کی جڑیں کاٹ کر
وفا پرور جذبے کاشت کر کے
دھڑکنوں کو اک نئی ترتیب میں ڈھالنا ہے
بے رحم ساعتوں کو
مہربان لمحوں کی داستان سنانی ہے
اندھیروں کو روشنی کے غلاف میں بند کرنا ہے
ان گنت تاریک آنکھوں میں
دھنک رنگوں سے زندگی کی تصویر بنانی ہے
تاثیر کو اپنے لہجے میں پناہ دے کر
آسمان تک دعاؤں کا راستہ کھوجنا ہے
حرف آشنائی سے اپنا مقدر آسمانوں پر لکھ کر
بند مٹھی میں چنگھاڑتے سکوت اور اندر بھری چیخ کو
گم نامی کے جزیروں میں دفن کرنا ہے
آسماں جیسے اس حسین منظر کو تخلیق کر کے
زمین کو آسمان بنانا ہے
نظم
ایک منظر آسماں جیسا
منیر احمد فردوس