EN हिंदी
ایک محبوس نظم | شیح شیری
ek mahbus nazm

نظم

ایک محبوس نظم

انجم سلیمی

;

دروازہ پیٹا جا رہا ہے
میرے جسم پر زخم اور نیل، ہرے ہوتے جا رہے ہیں

مجھے یاد آیا
گندی گالیاں اور میلے بوٹوں کی بھاری ایڑیاں

میرے اعصاب اور جسم کو شل کر رہی تھیں
کندھوں کولھوں اور رانوں پر

بد بو دار دانتوں کے نشان
دہکتی سلاخوں سے مٹانے کی کوشش بھی کی گئی

میں اونچی کھڑکی سے چھلانگ لگا سکتا تھا!
مگر سادہ کاغذ پر دستخط کے بغیر

مجھے اس سہولت کی اجازت بھی نہیں دی گئی
وہ سب میرے زندہ ہاتھوں سے زیادہ

میری مردہ آنکھوں سے خوف زدہ تھے شاید
میں نے انہیں بتا دیا تھا

کہ میں صرف بے مقصد زندگی
اور بے وقعت موت سے ڈرتا ہوں

میں نے کہا
زخمی دانتوں کے ساتھ مجھ سے ہنسا نہیں جاتا

لاؤ کاغذ ادھر لاؤ
میں اس پر ایک زور دار قہقہہ لکھ کر دستخط کر دوں

مجھے یاد ہے
وہ تھک ہار کے بے ہوش ہونے چلے گئے تھے

گندی گالیوں اور بوٹوں کی
بھاری ایڑیوں کے ساتھ

دروازہ پھر پیٹا جا رہا ہے!