لمحہ
دل کے بہت پاس سے
گزرا ہوا صرف ایک لمحہ
بہا لے گیا ہے
جانے کتنے خوابوں خواہشوں اور منصوبوں کو
بچا ہے
ہڈیوں تک دھنسا ہوا سناٹا
رکتی ہوئی سانسیں
ڈوبتی ہوئی نبض
اور سرد ہوا جسم
پھر کوئی تیز ہوا کا جھونکا
ڈھیر ساری گڈمڈ آوازیں
چیخ ہنسی اور مسکراہٹ
گھر دفتر بیوی بچے
اور آئندہ بیس برسوں کا منصوبہ
بھاگتی ہوئی آڑی ترچھی تصویریں
ایک کے بعد دوسرے بے ربط مناظر
اور پھر
ٹھہر گیا ہے گزرے ہوئے لمحے کا سایہ
ڈرا ڈرا سہما سہما دل
اور تھر تھر کانپتا ہوا جسم
نظم
ایک لمحہ
شاہد ماہلی