زندگی نام ہے کچھ لمحوں کا
اور ان میں بھی وہی اک لمحہ
جس میں دو بولتی آنکھیں
چائے کی پیالی سے جب اٹھیں
تو دل میں ڈوبیں
ڈوب کے دل میں کہیں
آج تم کچھ نہ کہو
آج میں کچھ نہ کہوں
بس یوں ہی بیٹھے رہو
ہاتھ میں ہاتھ لیے
غم کی سوغات لیے
گرمئ جذبات لیے
کون جانے کہ اسی لمحے میں
دور پربت پہ کہیں
برف پگھلنے ہی لگے
نظم
ایک لمحہ!
کیفی اعظمی