سنگ دل رواجوں کی
یہ عمارت کہنہ
اپنے آپ پر نادم
اپنے بوجھ سے لرزاں
جس کا ذرہ ذرہ ہے
خود شکستگی ساماں
سب خمیدہ دیواریں
سب جھکی ہوئی گڑیاں
سنگ دل رواجوں کے
خستہ حال زنداں میں
اک صدائے مستانہ
ایک رقص رندانہ
یہ عمارت کہنہ ٹوٹ بھی تو سکتی ہے
یہ اسیر شہزادی چھوٹ بھی تو سکتی ہے
یہ اسیر شہزادی
نظم
ایک لڑکی سے
فہمیدہ ریاض