خواب اب حسن تصور کے افق سے ہیں پرے
دل کے اک جذبۂ معصوم نے دیکھے تھے جو خواب
اور تعبیروں کے تپتے ہوئے صحراؤں میں
تشنگی آبلہ پا شعلہ بکف موج سراب
یہ تو ممکن نہیں بچپن کا کوئی دن مل جائے
یا پلٹ آئے کوئی ساعت نایاب شباب
پھوٹ نکلے کسی افسردہ تبسم سے کرن
یا دمک اٹھے کسی دست بریدہ میں گلاب
آہ پتھر کی لکیریں ہیں کہ یادوں کے نقوش
کون لکھ سکتا ہے پھر عمر گزشتہ کی کتاب
بیتے لمحات کے سوئے ہوئے طوفانوں میں
تیرتے پھرتے ہیں پھوٹی ہوئی آنکھوں کے حباب
تابش رنگ شفق آتش روئے خورشید
مل کے چہرے پہ سحر آئی ہے خون احباب
جانے کس موڑ پہ کس راہ میں کیا بیتی ہے
کس سے ممکن ہے تمناؤں کے زخموں کا حساب
آستینوں کو پکاریں گے کہاں تک آنسو
اب تو دامن کو پکڑتے ہیں لہو کے گرداب
دیکھتی پھرتی ہے ایک ایک منہ خاموشی
جانے کیا بات ہے شرمندہ ہے انداز خطاب
در بدر ٹھوکریں کھاتے ہوئے پھرتے ہیں سوال
اور مجرم کی طرح ان سے گریزاں ہے جواب
سرکشی پھر میں تجھے آج صدا دیتا ہوں
میں ترا شاعر آوارہ و بے باک و خراب
پھینک پھر جذبۂ بے تاب کی عالم پہ کمند
ایک خواب اور بھی اے ہمت دشوار پسند
نظم
ایک خواب اور
علی سردار جعفری