ہنسو کہ سرخ و گرم خون پھر سفید ہو گیا
ہنسو کہ نقطۂ امید پھر خلا کے دائرے میں آج قید ہو گیا
ہنسو کہ دشت آرزو میں تھک تھکا کے سب بگولے سو گئے
ہنسو کہ شہر زندگی کا بے فصیل ہو گیا
ہنسو کہ سایۂ صلیب پھر طویل ہو گیا
نظم
ایک خوش خبری
شہریار
نظم
شہریار
ہنسو کہ سرخ و گرم خون پھر سفید ہو گیا
ہنسو کہ نقطۂ امید پھر خلا کے دائرے میں آج قید ہو گیا
ہنسو کہ دشت آرزو میں تھک تھکا کے سب بگولے سو گئے
ہنسو کہ شہر زندگی کا بے فصیل ہو گیا
ہنسو کہ سایۂ صلیب پھر طویل ہو گیا