EN हिंदी
ایک خط | شیح شیری
ek KHat

نظم

ایک خط

سلیم احمد

;

سمندر نے یہ خالی سیپیاں
کیسے اگل دیں

آ کے ساحل پر
میں پہلے بھی کہا کرتا تھا

تجھ کو یاد ہو شاید
کہ تیری روح کے گہرے سمندر میں

میرا دل ایک سیپی ہے
مگر میں نے کبھی تیری محبت کو نمائش میں نہیں رکھا

میں ان لوگوں سے چھڑتا تھا
جو افسانے کہا کرتے ہیں یاروں سے محبت کے

مگر ویسے بھی دنیا میں کسی کی کون سنتا ہے
سناتا ہے کوئی جب اپنی باتیں

سننے والی اپنی باتیں یاد کرتے ہیں
مگر یہ کیسی راتیں ہیں

کہ اکثر سوتے سوتے چونک اٹھتا ہوں
مجھے تو نیند بھی اک قرض چشم عنبر ہے

میں سوتا جاگتا رہتا ہوں
اک ایسے مسافر کی طرح

جس کو کسی چھوٹے سے اسٹیشن پہ
گاڑی سے اترتا ہو

تیرے ہلتے ہوئے ہاتھوں سے
یہ کیسی ہوا آئی

مری جاں تجھ سے رخصت ہو کے
میں کتنا اکیلا تھا

اور دنیا سو رہی تھی
اس دل کی طرح

جس نے ابھی رونا نہ سیکھا ہو
کوئی کونپل

کبھی زور نمو میں
سنگ بستہ خاک سے لڑتی ہوئی

باہر نکلتی ہے
کہ جیسے شوخ بچے

ہاتھ اور دامن چھڑا کر
گھر سے باہر بھاگ جائیں

اور گزر گاہوں پہ سو جائیں
گذر گاہوں سے بچوں کو اٹھا کر لاؤ

اور گہوارہ جاں میں سلا دو
وہ جاگیں گے تو ان کے خواب پورے ہو چکے ہوں گے

سو آخر یوں ہوا
امید کی شاخوں پہ ایسے برگ و بار آئے

مری جاں
تیرا ملنا تشنگی کے دشت میں

وہ آب تازہ تھا
جو شبنم بھی ہے دریا بھی ہے

اور روح میں غم ہو تو آنسو بھی
مجھے آنسو نہیں ملتے نہیں ملتے نہیں ملتے

وہ شب بھی کیسی شب تھی
جس کا نقد صبح اب تک قرض ہے

جو مجھ سے پوچھتا ہے
اب محنت کو کہاں لے جاؤ گے

کس دل میں رکھو گے
میں چپ تھا

تو بھی چپ تھی
اور خاموشی کے لمحوں کے

گزرتے قافلے
سانسوں کی آواز جرس جا رہے تھے

ایک منزل کی طرف
جو نصف جنت نصف دوزخ تھی

میں کتنا سنگ دل ہوں
جو تیری جنت پہ خوش ہوتا نہیں

دوزخ پہ ہنستا ہوں