EN हिंदी
ایک کہانی | شیح شیری
ek kahani

نظم

ایک کہانی

مسعود حسین خاں

;

رات کل فضاؤں میں تیری ہی کہانی تھی
ہم بھی سننے والے تھے دل کی پاسبانی تھی

آسماں سے آمد تھی گم شدہ خیالوں کی
جس قدر تصور تھا اتنی شادمانی تھی

دور ساری دنیا سے اک نگر بسایا تھا
اس کا ایک راجا تھا اس کی ایک رانی تھی

زلف و رخ کی باتیں تھیں دن تھا اور راتیں تھیں
صبح کتنی رنگیں تھی شام کیا سہانی تھی

یاد ہیں وہ دن اب تک جب حسین راتوں میں
تیری گنگناہٹ پر میری نغمہ خوانی تھی

تیرے اک تبسم پر وقت بھی ٹھہر جاتا
اس میں کب ترنم تھا اس میں کب روانی تھی

آنسوؤں سے جیتا تھا گوہر محبت کو
تیری کامرانی بھی کیسی کامرانی تھی

کتنی گرم جوشی تھی کتنی گریہ و زاری
کتنی سرد مہری تھی کتنی سرگرانی تھی

یہ مری خدائی تھی یا تری خدا جانے
میری لن ترانی پر تیری بے زبانی تھی

میں نے تجھ کو کب سمجھا میں نے تجھ کو کب پایا
میں زمیں کا بندہ تو روح آسمانی تھی