مرے یار
تیرا مرا ایک ہی راستہ ہے
کہ پلکوں سے صحرا بہ صحرا چمکدار ذرات چن کر
شرابور مٹھی میں محفوظ کرتے رہیں
اور سر شام
پھیلا کے ان کو ہتھیلی پہ دیکھیں
کہ آیا کوئی ریزۂ زر بھی حاصل ہوا یا نہیں
کتاب مقدر بھی نقش اضافہ نہ اترے
تو بطن تفکر کو امید کے نان شیریں سے بھر کر
شگفتہ شعاعوں میں سر کو جھکائے
اسی اپنی منسوب رہ پہ نکل جائیں
پلکوں سے ذرات چننے کی خاطر
غروب شفق تک
نظم
ایک ہی راستہ
ضمیر اظہر