شکستہ ہوں مگر دولت بھی ہے حاصل ہوئی ہم کو
گزارے ساتھ جو پل قدر اس کی ہو نہیں کس کو
بنے سرمایہ ہیں وہ زندگی کا پیار سے رکھنا
خودارا یادیں مت لینا
یہی یادیں ہیں لے جائیں گی ہم کو آخری دم تک
نہ کوئی ہم سفر ہوگا نہ جائے گا کوئی گھر تک
یہ گھر احساس کا ہوگا میرا احساس مت لینا
خودارا یادیں مت لینا
ہے کھیلی پیار کی بازی نہ جیتا میں نہ تم ہاری
لگائے گی یہ دنیا ضرب اپنے دم سے ہی کاری
یہ طے ہے زخم مانگے گا کوئی مرہم لگا دینا
خودارا یادیں مت لینا
ملے ہم اتفاقاً تھے مگر راہیں لگیں یکساں
کبھی دشواریاں اپنی کبھی منزل رہی پنہاں
یے ہوتا رہتا ہے اکثر جو روٹھے دل منا لینا
خودارا یادیں مت لینا
یہ ہاتھوں کی لکیریں بعض آئیں گی کہاں دلبر
انہیں تو بیر ہے ہم سے کرم فرما رقیبوں پر
رہے گا کھیل قسمت کا اسے ہے کھیل میں لینا
خودارا یادیں مت لینا
مجھے ہے یہ یقیں پاؤ گے تم اپنی نئی منزل
میں تڑپوں یا کروں گریہ نہیں ہوگا کوئی حاصل
ہٹا کر مجھ کو رستے سے قدم آگے بڑھا لینا
خودارا یادیں مت لینا

نظم
ایک گزارش
عزیر رحمان