بارشیں اس کے بدن پر
زور سے گرتی رہیں
اور وہ بھیگی قبا میں
دیر تک چلتی رہی
سرخ تھا اس کا بدن
اور سرخ تھی اس کی قبا
سرخ تھی اس دم ہوا
بارشوں میں جنگلوں کے درمیاں چلتے ہو
بھیگتے چہرے کو یا اس کی قبا کو دیکھتے
بانس کے گنجان رستوں پہ کبھی بڑھتے ہوئے
اس کی بھیگی آنکھ میں کھلتی دھنک تکتے ہوئے
اور کبھی پیپل کے گہرے سرخ سایوں کے تلے
اس کے بھیگے ہونٹ پہ کچھ تتلیاں رکھتے ہوئے
بارشوں میں بھیگتے لمحے اسے بھی یاد ہیں
یاد ہیں اس کو بھی ہونٹوں پہ سجی کچھ تتلیاں
یاد ہے مجھ کو بھی اس کی آنکھ میں کھلتی دھنک
نظم
ایک دھندلی یاد
تبسم کاشمیری