EN हिंदी
ایک دور | شیح شیری
ek daur

نظم

ایک دور

گلزار

;

چاند کیوں ابر کی اس میلی سی گٹھری میں چھپا تھا
اس کے چھپتے ہی اندھیروں کے نکل آئے تھے ناخن

اور جنگل سے گزرتے ہوئے معصوم مسافر
اپنے چہروں کو کھرونچوں سے بچانے کے لیے چیخ پڑے تھے

چاند کیوں ابر کی اس میلی سی گٹھری میں چھپا تھا
اس کے چھپتے ہی اتر آئے تھے شاخوں سے لٹکتے ہوئے

آسیب تھے جتنے
اور جنگل سے گزرتے ہوئے رہ گیروں نے گردن میں اترتے

ہوئے دانتوں سے سنا تھا
پار جانا ہے تو پینے کو لہو دینا پڑے گا

چاند کیوں ابر کی اس میلی سی گٹھری میں چھپا تھا
خون سے لتھڑی ہوئی رات کے رہ گیروں نے دو زانو پہ گر کر،

''روشنی، ،روشنی''! چلایا تھا، دیکھا تھا فلک کی جانب،
چاند نے گٹھری سے ایک ہاتھ نکالا تھا، دکھایا تھا چمکتا ہوا خنجر