EN हिंदी
ایک درخت ایک تاریخ | شیح شیری
ek daraKHt ek tariKH

نظم

ایک درخت ایک تاریخ

حسن نعیم

;

جیسے جھک کر اس نے سرگوشی میں مجھ سے یہ کہا
وہ دیار غرب ہو کہ گلستان شرق ہو

ظلم کے موسم میں بوئے گل سے کھلتے ہیں گلاب
جستجو کی منزلوں میں خواب کی مشعل لیے

ڈالیوں پر آ کے گرتے ہیں تھکے ماندے پرند
آشیاں بندی میں رنگ و نسل کی تمییز کیا

تفریق کیا
جابرؔ و مجبور کی دنیا الگ عقبیٰ الگ