جسم ہے تیرا رنگ کی دنیا
روپ ہے تیرا نور کی وادی
تو بھی مجبور ہے کلرکی پر
اے کلرکوں کے دل کی شہزادی
تیری آنکھیں سرور کا مندر
تیری زلفیں بہار کا مسکن
اور ٹائپ کی گت پہ ناچتا ہے
تیرا دوشیزہ نغمئ جوبن
تیرے ان عارضوں کے پھولوں پر
گلستاں کا گمان ہوتا ہے
اور تیرا غرور زیبائی
فائلوں سے لپٹ کے روتا ہے
اپنی ضو سے جھجک رہا ہے چراغ
تجھ سے ڈرتی ہے تیری پرچھائیں
زندگی کی ضرورتیں تجھ کو
کن عجب راستوں پہ لے آئیں
تو بھی وہ شعر دل نشیں ہے جسے
آج تک کوئی قدرداں نہ ملا
خود سراپا بہار ہے لیکن
تیرا اپنا چمن کبھی نہ کھلا
آج تک تو نے زخم کھائے ہیں
رنگ افشاں گلوں کے دھوکے میں
آ سجا لوں ترے تجسس کو
اپنے احساس کے جھروکے میں
آئنہ کس لئے ہے زنگ آلود
پھول کی پنکھڑی پہ سل کیوں ہے
دیکھ کر تجھ کو سوچتا ہوں میں
زندگی اتنی تنگ دل کیوں ہے
نظم
ایک کلرک لڑکی
نریش کمار شاد