EN हिंदी
ایک بات | شیح شیری
ek baat

نظم

ایک بات

ظہور نظر

;

مجھے ہر اک بات کی خبر ہے
جو ہو چکی ہے

جو ہو رہی ہے
جو ہونے والی ہے آج لیکن

میں صرف اس بات کے بھنور میں اتر رہا ہوں
جو ہونے والی ہے

جس کو سرگوشیوں کا اک بے کراں سمندر
اگلنے والا ہے

کارواں جس کا اب حکایت کی سر زمینوں پہ چلنے والا ہے
جس کو ہر داستاں گلے سے لگانے والی ہے

جس کی ہاں میں ہر ایک ہاں ہاں ملانے والی ہے
آؤ لوگو

طلب کے ساحل پہ خامشی کی دبیز چادر لپیٹ کر سونے والے لوگو
شاید اندوہ کے اندھیرے میں خوف کی خار دار چادر لپیٹ کر رونے والے لوگو

سنو کہ جو بات ہونے والی ہے اس کا آغاز ہو رہا ہے
سنو کہ یہ بات آپ کی ہے

سنو کی یہ بات روس اور چین کی نہیں ہے
وہاں تو اس کو ہوئے زمانہ گزر چکا ہے

یہ بات ویتنام اور کمبوڈیا کی بھی اب نہیں رہی ہے
وہاں تو اب اس کی شکل اک داستاں کی صورت میں ڈھل چکی ہے

وہاں سے یہ بات چل چکی ہے
یہ بات اب تم کرو گے تم

جن کے وہم میں بھی نہ تھا کہ اک دن
اسے تمہارے لہو لہو لب ادا کریں گے

یہی تو اس بات کا کرشمہ ہے معجزہ ہے
کہ ابتدا اس کی جب بھی ہوگی

وہی کریں گے
جو انتہا کے حقیر ہوں گے

مگر بہت با ضمیر ہوں گے
مجھے تمہارے

مجھے تمہارے حقیر اور با ضمیر ہونے میں شک نہیں ہے
کہ میں بھی تم میں سے ایک ہوں اور جانتا ہوں

کہ تم جو مدت سے خامشی کی دبیز چادر لپیٹ کر سو رہے ہو
کیا ہو

کہ تم جو اندوہ کے اندھیرے میں خوف کی خار دار چادر
لپیٹ کر رو رہے ہو کیا ہوا

سنو کہ جو بات ہونے والی تھی ہو رہی ہے
میں اس کا آغاز کر چکا ہوں

اٹھو اپنے لہو لہو لب
مری صدا کے لبوں پہ رکھ دو