چلو آج ایک اور کوشش ہوگی
پھر ایک شام ڈوب جائے گی شراب میں
زندگی کے اندھیرے سرد ٹکڑے
جام میں گھل کر ہونٹھوں کے حوالے ہوں گے
زباں پہ تھرکتی تشنگی دھیرے دھیرے
حلق تک پھیل جائے گی
خاموشی کا لباس پہنے
کونے میں قید تنہائی رہا ہوگی
اور نس نس میں دوڑ کر رقص کرے گی
میرے لہو میں بہہ رہے اس بے قابو شخص کو
سنبھالنے کی مشقت ہوگی
سلگتی روح اس کی یادوں کی بھاپ میں
تپ کر سرخ لال ہو جائے گی
آنکھوں سے گرم بلبلے ٹپکنے لگیں گے
جام در جام اندرونی ابال
پگھلتا جائے گا
جب آنکھوں کے پیمانے بالکل خالی ہو جائیں گے
تب اس لال بستر پر
میری نیندیں تمہارے خوابوں کو
آغوش میں لے کر سو جائے گی
نظم
ایک اور شرابی شام
درشکا وسانی