خود فہمی کا ارماں ہے تاریکی میں روپوش
تاریکی خود بے چشم و گوش!
اک بے پایاں عجلت راہوں کی الوند!
سینوں میں دل یوں جیسے چشم آز صیاد
تازہ خوں کے پیاسے افرنگی مردان راد
خود یو آہن کے مانند
دریا کے دو ساحل ہیں اور دونوں ہی ناپید
شر ہے دست سیہ اور خیر کا حامل روئے سفید
اک بار مژگاں اک لب خند
سب پیمانے بے صرفہ جب سیم و زر میزان
جب ذوق عمل کا سر چشمہ بے معنی ہذیان
جب دہشت ہر لمحہ جاں کند
یہ سب افقی انسان ہیں یہ ان کے سماوی شہر
کیا پھر ان کی کمیں میں وقت کے طوفاں کی اک لہر؟
کیا سب ویرانی کے دل بند
نظم
ایک اور شہر
ن م راشد