رات چپ چاپ دبے پاؤں چلے جاتی ہے
رات خاموش ہے روتی نہیں ہنستی بھی نہیں
کانچ کا نیلا سا گنبد ہے اڑا جاتا ہے
خالی خالی کوئی بجرا سا بہا جاتا ہے
چاند کی کرنوں میں وہ روز سا ریشم بھی نہیں
چاند کی چکنی ڈلی ہے کہ گھلی جاتی ہے
اور سناٹوں کی اک دھول اڑی جاتی ہے
کاش اک بار کبھی نیند سے اٹھ کر تم بھی
ہجر کی راتوں میں یہ دیکھو تو کیا ہوتا ہے
نظم
ایک اور رات
گلزار