کٹ گیا دن ڈھلی شام شب آ گئی
پھر زمیں اپنے محور سے ہٹنے لگی
چاندنی کروٹیں پھر بدلنے لگی
آہٹوں کے سسکتے ہوئے شور سے
پھر مکاں بھر گیا
زہر سپنوں کا پی کر
کوئی آج کی رات پھر مر گیا!
نظم
ایک اور موت
شہریار
نظم
شہریار
کٹ گیا دن ڈھلی شام شب آ گئی
پھر زمیں اپنے محور سے ہٹنے لگی
چاندنی کروٹیں پھر بدلنے لگی
آہٹوں کے سسکتے ہوئے شور سے
پھر مکاں بھر گیا
زہر سپنوں کا پی کر
کوئی آج کی رات پھر مر گیا!