EN हिंदी
ایک اجنبی لڑکی | شیح شیری
ek ajnabi laDki

نظم

ایک اجنبی لڑکی

عفیف سراج

;

شام شام جیسی تھی راستوں پہ ہلچل تھی
کام کرنے والے سب

اپنا فرض ادا کر کے
اپنے اپنے میداں سے

کچھ تھکے تو کچھ ہارے
اپنے گھر کو جاتے تھے

بھیڑ تھی دکانوں پر
گھر کو لوٹنے والے

اگلی صبح کی خاطر
رک کے مال لیتے تھے

ہر کسی کو جلدی تھی
اور شام ڈھلتی تھی

ایک ہم تھے آوارہ
کل نہ تھا کوئی سودا

اس لئے سڑک پر ہم
دھیرے دھیرے بڑھتے تھے

بھاگتے ہوئے لوگوں پر نگاہ کرتے تھے
اور ان پہ ہنستے تھے

اپنی مستیوں میں گم
بے نیاز دنیا سے

آگے بڑھ رہے تھے ہم
مسکرا رہے تھے ہم

لیکن ایک منزل پر
ہم ٹھٹھک گئے اک دم

ایک اجنبی لڑکی
ہم پہ اک نظر کر کے

خوب خوب ہنستی تھی
منہ کو پھیر لیتی تھی

پھر پلٹ کے وہ ہم کو دیکھتی تھی ہنستی تھی
جانے اپنے جیسوں پر

اس کی کھلکھلاہٹ نے
کون سا اثر ڈالا

کس نے جانے کیا سوچا
کس نے جانے کیا سمجھا

ہے خبر مجھے اپنی
میری مستیاں ساری

شام کے دھندلکے میں
دور ہوتی جاتی تھیں

خود پہ شرم آتی تھی
اور وہ شوخ سی لڑکی

ہم پہ ہنستی جاتی تھی
اب مری نگاہوں کو اپنا دھیان آیا تھا

اجنبی سی لڑکی نے دل بہت جلایا تھا
اب میں ذات کا اپنی خود طواف کرتا تھا

اپنے عکس کو اپنے آئنے میں تکتا تھا
اب نیاز مندی تھی میری بے نیازی میں

اب وہ اجنبی لڑکی
دوسرے اک آوارہ

پر نگاہ کرتی تھی
اس کو دیکھ کر پھر وہ

بے پناہ ہنستی تھی
وہ عجیب لڑکی تھی وہ عجیب لڑکی تھی