وہ لڑکی وہ معصوم الھڑ سی لڑکی
کسی آرزو کی طرح دل نشیں تھی
شعاع سحر کی طرح تھی اچھوتی
بہاروں ستاروں کا خواب حسیں تھی
بہاروں ستاروں کا وہ خواب لیکن
نرالی ہی تعبیر میں ڈھل رہا ہے
وہ معصوم دل جو چراغ وفا تھا
ہوس کی بھری بزم میں جل رہا ہے
وہ جلتے ہوئے کچھ پشیمان بھی ہے
نکھر بھی رہی ہے مگر اس جلن سے
جمال حقیقت بھی شرما رہا ہے
بناوٹ کے اس کھوکھلے بانکپن سے
ندامت کے ٹوٹے ہوئے آنسوؤں نے
تبسم کو آراستہ کر دیا ہے
بلکتے ہوئے ولولوں کے لہو نے
نگاہوں میں بھی رنگ سا بھر دیا ہے
وہ آزاد پنچھی جو ڈوبا ہوا تھا
نشیلے سجیلے خیالوں کے رس میں
بڑے ناز سے بیچ کر پنکھ اپنے
چہکتا ہے اب مصلحت کے قفس میں
جو دوشیزگی نکہت رائیگاں تھی
بڑا کار آمد دھواں بن رہی ہے
محبت بھرے دل کی سادہ سی دھڑکن
بڑی خوبصورت فغاں بن رہی ہے
کنواری امنگوں کی منہ بند کلیاں
زر و سیم کے ڈھیر میں تل رہی ہیں
بدن کی مہکتی ہوئی چاندنی میں
کھنکتی ہوئی ظلمتیں گھل رہی ہیں
خزاں کے سنہری فریبوں میں آ کر
حیا کا مقدس چمن لٹ رہا ہے
یہ عورت نہیں ایک مدفن سے جس میں
اک الھڑ سی لڑکی کا دم گھٹ رہا ہے
وہ الھڑ سی لڑکی جو کچھ سال پہلے
کسی آرزو کی طرح دل نشیں تھی
شعاع سحر کی طرح تھی اچھوتی
بہاروں ستاروں کا خواب حسیں تھی
نظم
ایک ایکٹرس
نریش کمار شاد