اب تم آغوش تصور میں بھی آیا نہ کرو
مجھ سے بکھرے ہوئے گیسو نہیں دیکھے جاتے
سرخ آنکھوں کی قسم کانپتی پلکوں کی قسم
تھرتھراتے ہوئے آنسو نہیں دیکھے جاتے
اب تم آغوش تصور میں بھی آیا نہ کرو
چھوٹ جانے دو جو دامان وفا چھوٹ گیا
کیوں یہ لغزیدہ خرامی پہ پشیماں نظری
تم نے توڑا تو نہیں رشتۂ دل ٹوٹ گیا
اب تم آغوش تصور میں بھی آیا نہ کرو
میری آہوں سے یہ رخسار نہ کمھلا جائیں
ڈھونڈتی ہوگی تمہیں رس میں نہائی ہوئی رات
جاؤ کلیاں نہ کہیں سیج کی مرجھا جائیں
نظم
احتیاط
کیفی اعظمی