میری آنکھوں میں ہے بے خوابی کے نشتر چبھن
ہر طرف تیرہ شبی، ہر طرف ایک گھٹن
کوئی شعلہ نہ کرن
سرد ہونے کو ہے دل کی دھڑکن
تک رہی ہے مجھے کس حسرت سے
میرے بستر کی ہر اک درد سے بھرپور شکن
ڈس نہ لے دل کو یہ تنہائی کے احساس کی کالی ناگن
اے مرے خواب کی دلکش پریو
گنگناتی ہوئی زلفوں کی گھٹا
سرخ رخسار
دمکتے ہوئے لب
نشۂ چشم فسوں ساز لیے
مرمریں جسم لیے
شعلۂ آواز لیے
آ سکو آج اگر آ جاؤ
میری تنہائی کو چمکا جاؤ
سرد ہے آتش دل
اپنے آنچل کی ہوا سے اسے دہکا جاؤ!
نظم
احساس
افتخار اعظمی