احساس کی مہنگائی بہت بڑھ گئی ہے
آج کل کوئی نظمیں خریدنے نہیں آتا
تمہارے سرہانے میرے ہاتھوں کی لکیریں رکھی ہیں
یقین نہیں تو ٹٹول کر دیکھ لینا
یہ وقت کی ہی گستاخی ہے جو گزرنے سے کبھی بعض نہیں آتا
اگر میں ٹھہرا ہوا نہ ہوتا تو نہ جانے وقت کیسے گزرتا
اس خالی ایش ٹرے میں تیرے نام والے احساس کو
کش مار کر بجھا دیا ہے ہم نے
تمہارے عشق کے ماتھے پر یہ کیسی جھریاں پڑ گئی ہیں
بڑھاپے کے علاوہ اور کیا حاصل ہوا
ایک بوڑھا ندی کے کنارے کھڑا سوریاست دیکھ رہا تھا
کچھ لوگوں کے نہ گھر میں آئینہ ہوتا ہے اور نہ زندگی میں
نظم
احساس
امت برج شا