EN हिंदी
ممبئی | شیح شیری
mumbai

نظم

ممبئی

تری پراری

;

شہر ممبئی
مجھے اس نے چنا ہے ہم سفر اپنا

یہ میری سانس کے مرنے تلک
سائے کی طرح ساتھ میں ہوگا

شہر ایسا
جو اجلی روشنی میں ڈوبا رہتا ہے

مگر ان روشنی کے جھرمٹ میں تیرگی بھی ہے
جہاں بازار زندہ ہے

جہاں روحوں کا سودا رات دن ہوتا ہی رہتا ہے
جہاں اپنوں سے لگتے ہیں نہ جانے کتنے بیگانے

نظر جس سمت بھی پھینکو
یہاں اونچی عمارت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے

یہاں عرض دعا مہر و وفا کچھ بھی نہیں ہے
کئی لاشیں بھٹکتی رہتی ہیں بے روح نکڑ پر

جہاں رکتی ہیں لمبی گاڑیاں آ کر
میں اکثر سوچتا ہوں یہ

نہ جانے کون بیٹھا رہتا ہے ان بند شیشوں میں
شہر ممبئی

مجھے اس نے چنا ہے ہم سفر اپنا
یہ میری سانس کے مرنے تلک

سائے کی طرح ساتھ میں ہوگا
شہر ایسا

جو گہری نیند میں بھی چلتا رہتا ہے
خوشی سے کھول کر آنکھیں

جو سارے خواب بنتا ہے
شہر یہ ایک جنگل ہے

جہاں آنکھیں ہی آنکھیں ہیں
ہزاروں پھول سی آنکھیں ہزاروں پتھری آنکھیں

ہزاروں خوش نما آنکھیں ہزاروں ماتمی آنکھیں
ہزاروں آشنا آنکھیں ہزاروں اجنبی آنکھیں

سبھی آنکھوں کی پلکوں پر
اداسی ایسے بیٹھی ہے

کہ جیسے سانپ کوئی کنڈلی مارے ہوئے بیٹھے
وہ پلکیں جانتی ہیں

کیسے اپنا دکھ چھپانا ہے
مگر جب غور سے دیکھو تو یوں محسوس ہوتا ہے

وہ پلکیں صبر ہیں اور جبر ہیں
اور قبر ہیں آنکھیں

جہاں پر دفن ہیں یادیں کسی مرحوم بچہ کی
شہر ممبئی

مجھے اس نے چنا ہے ہم سفر اپنا
یہ میری سانس کے مرنے تلک

سائے کی طرح ساتھ میں ہوگا
شہر ایسا

جو بہتے وقت کو مٹھی میں رکھتا ہے
اسی کی کوکھ میں اپنے پرائے وقت کی پہچان ہوتی ہے

شہر کی گود میں ہے اک سمندر بھی
جو گھنٹوں دھوپ کی چھتری لگائے بیٹھا رہتا ہے

حسیں ساحل کے ریتوں پر
وہیں پر بادلوں سے ایک ننھی شام آتی ہے

سرا اس شام کا راتوں میں کھلتا ہے
فزا کا شور جب دن کی بجائے نرم ہوتا ہے

مکاں کی اوٹ میں جب چاند پیلا چھپنے لگتا ہے
ستارے اونگھنے لگتے ہیں جب ہلکان ہو ہو کر

تو آپس میں گلے لگ کر
سمندر کے کنارے رونے لگتے ہیں

میں اس بھیگے ہوئے لمحہ کا اک تنہا گواہی ہوں
میں منظر کی سیاہی ہوں

میں اک ایسا سپاہی ہوں
جسے اب زندگی کی آخری اک جنگ لڑنی ہے

مرا اب ساتھ دے گا یہ
شہر ممبئی

جسے میں نے چنا ہے ہم سفر اپنا
جو میری سانس کے مرنے تلک

سائے کی طرح ساتھ میں ہوگا