زیست یوں ہی نہ رہے گی مغموم
زندگانی کو بدلنا ہوگا
لاکھ آمادۂ سازش ہے یہ شب
اس شب تیرہ کو ڈھلنا ہوگا
موت کا سایہ لرزتا ہے تو کیا
وقت آلام کو لایا ہے تو کیا
نامۂ درد جو آیا ہے تو کیا
غم کو سہہ جائیں دلاور بن کر
پی لیں دریا کو سمندر بن کر
غم تو آتے ہی رہیں گے پیہم
آتے جاتے ہی رہیں گے ہر دم
زخم خود پیدا کریں گے مرہم
غم و اندوہ کی کچھ بات نہیں
یہ کوئی لمحۂ ہیہات نہیں
عزم پرواز نہ دینے پائے
اپنی آواز نہ دینے پائے
رات تاریک بھی سنسان بھی ہے
عزم کے گیت تو گائیں آؤ
شب دیجور کو روشن تو کریں
شمع امید جلائیں آؤ
نظم
امید
داؤد غازی