ہر شاخ تمنا پر میری ہر چند کہ برگ و بار لگے
وہ پیڑ جو میرے نام کا ہے، ہر آنکھ کو سایہ دار لگے
پر، ایک کمی سی رہتی ہے
کچھ وقف تبسم ہونٹ بھی ہیں، کچھ رستہ تکتی آنکھیں بھی
کچھ وہ ہیں جن سے ملنے کو بے تاب ہوں میری بانہیں بھی
پر، ایک خلش سی رہتی ہے
یہ داد و ستائش کے تمغے، کچھ شعروں پر، کچھ کاموں پر
اور اتنا استحقاق بھی جو ہوتا ہے صبحوں شاموں پر
پر، اک محرومی رہتی ہے
جو اک محرومی، ایک خلش جو ایک کمی سی رہتی ہے
وہ ایک کمی، وہ ایک خلش، وہ اک محرومی تم ہی تو ہو
نظم
اعتراف
انجم خلیق