کہہ نہیں سکتا کہاں سے آئے ہو، تم کون ہو
ایسا لگتا ہے کہ یہ صورت ہے پہچانی ہوئی
خاک میں روندا ہوا چہرہ مگر اک دل کشی
آنکھ میں ہلکا تبسم، دل میں کوئی ٹیس سی
پاؤں سے لپٹی ہوئی بیتے ہوئے لمحوں کی گرد
پیرہن کے چاک میں گہرے غموں کی تازگی
پرسش غم پر بھی کہہ سکنا نہ اپنے جی کا حال
کچھ کہا تو بس یہی کہ تم پہ کچھ بیتی نہیں
راہ میں چلتے ہوئے ٹھوکر لگی اور گر پڑے
یوں ہی کانٹے چبھ گئے ہیں، پھٹ گئی ہے آستیں
یاد آتا ہے کہ تم مجھ سے ملے تھے پہلی بار
اک کہانی میں نہ جانے کس کی تھی لکھی ہوئی
اور میں نے اس طرح کے آدمی کو دیکھ کر
دل میں سوچا تھا کہ اس سے آج کر لوں دوستی!
نظم
دوسری ملاقات
خلیلؔ الرحمن اعظمی