اندھیرے سے
کشید صبح کی
روشن گواہی مانگنے سے
رات کے لمحے
نہ گھٹتے ہیں
نہ بڑھتے ہیں
کبھی گہرے بھنور کے بیچ اٹھتی
دوریوں کی دھند میں لپٹی
کسی کی ساحلی آواز
دریا کا کنارا بھی نہیں ہوتی
دکھوں کی اپنی اک تفسیر ہوتی ہے
جو اپنے لفظ خود ایجاد کرتی ہے
جو خوابوں سے الجھتی ہے
جو خوابوں سے زیادہ
معتبر ہوتی ہے
لیکن کشف کا لمحہ
مسافت کی ہزاروں منزلوں کے بعد آتا ہے
نمود گوہر کم یاب کی ساعت میں
خالی سیپیوں کا ڈھیر بے معنی نہیں ہوتا
نظم
دکھوں کی اپنی اک تفسیر ہوتی ہے
یاسمین حمید