یہ تاجران دین ہیں
خدا کے گھر مکین ہیں
ہر اک خدا کے گھر پہ ان کو اپنا نام چاہئے
خدا کے نام کے عوض کل انتظام چاہئے
ہر ایک چاہتا ہے یہ
مرا خدا خرید لو
نہ کر سکے یہ تم اگر
یہ تاجران پیشہ ور
کریں گے تم سے یوں خطاب
انتقام چاہئے
میری کتاب جو کہے
وہ ہی نظام چاہئے
خدا کے جتنے روپ ہیں
انہوں نے خود بنائے ہیں
ہر اک خدا میں صاحبو
وہ ساری خوبیاں ہیں جو
انہیں بہت عزیز ہیں
ہر اک دکان پر یہاں
نیا خدا سجا ہوا
ہر اک دکان دار کی
فقط یہی ہے التجا
مرا خدا خرید لو
خدا کی بھی سنے کوئی
وہ کہہ رہا ہے بس یہی
کہ صاحبو میں ایک ہوں
مرے سوا کوئی نہیں
کسی کی بات مت سنو
مرا تو کوئی گھر نہیں
دلوں میں بس رہا ہوں میں
ہر ایک پل
ہر ایک سانس
تم میں جی رہا ہوں میں
نہ خود تم اپنی جان لو
کہ تم ہی میری جان ہو
جو تم نے جان وار دی
تو میں کہاں بسوں گا پھر
مرا تو کوئی گھر نہیں
جو بیچتے ہیں اپنے گھر
سجا کے میرے نام پر
یہ نفس کے اسیر ہیں
یہ لوگ بے ضمیر ہیں
نظم
دکان دار
عدیل زیدی