ریل گاڑی یہ گھمسان الٰہی توبہ
نہ مروت نہ تکلف نہ تبسم نہ ادا
یوں ہی اک غیر شعوری سی خشونت کا خروش
بے ارادہ ہے تو کیا غیر شعوری ہے تو کیا
یہ نئے دور کے احساس غلامی کا ظہور
انتقامانہ تحکم کی نمود
اس میں اک اظہار بغاوت بھی تو ہے
یوں ہی یوں ہی سہی
اک شائبہ داد شجاعت بھی تو ہے
چاک تو کرتا ہوں میں اپنا گریباں ہی سہی
کلبلاتی ہوئی مخلوق کی اس دلدل میں
سینہ تانے ہوئے کچھ لوگ بڑھے جاتے ہیں
خوب پھنکارتے پھن پھیلائے
لوگ وہ لوگ نہیں
جن کو ٹھکراتے ہوئے جاتے ہیں
یہ لوگ بڑے صاحب لوگ
یہ جو حکام ہمارے ہیں یہ حکام نہیں
جو ہمیں سے ہیں مگر ہم میں نہیں
یہ جو بندوں کے ہیں آقا مگر آقا کے غلام
با وفا ہوں تو ہوں بے دام نہیں
تو دوست کسی کا بھی ستم گر نہ ہوا تھا
ان پہ دنیا کی ہر اک راہ کشادہ ہے مگر
آج اک سنگ راں حائل ہے
کہ اٹھائے نہ اٹھے اور ہلائے نہ ہلے
دوسرے درجے کے دروازے میں
ان کے آقاؤں کا اک فرد فرنگی گورا
باہیں پھیلائے ہوئے راستہ روکے ہے کھڑا
کون ہوتا ہے حریف مے مرد افگن عشق
سیٹیاں بجنے لگیں خدمت سرکار بجا لانا ہے
اور سرکار ہی خود سنگ رہ منزل ہے
زندگی آ گئی دوراہے پر
دیر کیوں کرتے ہو بھاگو بھاگو
دوڑ کر تھرڈ کے ڈربے میں گھسو
اپنے ہم جنس غلاموں میں ملو
زندگی آ گئی دوراہے پر
نظم
دوراہا
محمد دین تاثیر